سعودیہ کی یمن میں دہشت گرد حوثی قبائل کے خلاف جنگی کاروائی کا آغاز ہوتے ہی پاکستان نے بھی اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھرپور طریقے سے سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔پاکستان کے اس اعلان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔سعودیہ ہمارا برادر ملک ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے ۔پاکستانی حکومت اور اس کی عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دے ۔
بعض لوگ دہشت گرد حوثی قبائل کا شعیہ مذہب ہونے کی وجہ سے اسے شعیہ سنی کی جنگ کہہ کر فرقہ واریت کی ہوا پھیلانا چاہ رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو یہ جنگ اہل تشیع کی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ جنگ باغی دہشت گردوں کے خلاف ہے اور دہشت گردی کا کوئی مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔یہ دہشت گرد یمن پر قبضہ کرکے ایک تو سعودیہ کی تیل کی رسد توڑنا چاہتے ہیں تاکہ سعودیہ کو معاشی طور پر تباہ کیا جاسکے دوسرا یمن میں قبضے کے بعد سعودیہ میں اپنے مطلب کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ جنگ سعودی عرب میں خانہ جنگی کو ہوا دینے ، اس کے وسائل پر قبضہ اور مسلمانوں کے قبلے پر قبضے کی جنگ ہے۔۔۔کچھ بیرونی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے اکھٹی ہو بیٹھی ہیں جو مسلمانوں کے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی متمنی ہیں ۔اس لئے اس دہشت گردی کو روکنا سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے دوست ملکوں کا بھی فرض ہے ۔پاکستان نے ایسے مشکل وقت میں سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر کے بلاشبہ دانش مندی اور مسلمان دوستی کا ثبوت دیا ہے ۔
یاد رہے کہ امریکہ نے پچھلے دس سالوں کے دوران دہشت گرد حوثی قبائل کا سر کچلنے کے لئے یمن حکومت کی بھرپور مدد کی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی خصوصی افواج خفیہ طور پر یمن کی فوج کو دارالحکومت صنعا میں تربیت فراہم کرتی رہی ہیں جبکہ امریکہ نے دہشت گرد حوثی قبائل پر متعدد ڈرون حملے بھی کیے تھے ۔
ادھر اگر ہم ملک یمن پر ایک نظر ڈالیں تو یمن ایک قدیم تہذیب کا امین ملک ہے اور مشرق وسطی میں یمن عربوں کی اصل سر زمین ہے ۔یمن کا محل وقوع انتہائی اہم ہے ۔اس کے دارالحکومت کا نام صنعاء ہے ۔اس کی آبادی تقریباً 20 ملین کے قریب ہے ۔ یہ ملک خلیج فارس پر خام تیل کی سپلائی کے راستے پر واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے، اور مغرب میں بحیرہ احمر ہے۔ ۔قدیم دور سے یمن مصالحوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔یمن کے دائیں جانب باب المندب ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 25,000 سے زائد بحری جہاز بحرِ ہند اور بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ جنگ اہل تشیع کی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ جنگ باغی دہشت گردوں کے خلاف ہے اور دہشت گردی کا کوئی مذہب یا ملک نہیں ہوتا
جواب دیںحذف کریںبہترین بات کہی۔
ایک عرض ؛ امریکہ نے یمنی حکومت یا فوج کو "حوثیوں" کے خلاف کبھی امداد فراہم نہیں کی اور نہ ہی ڈرون حملے کئے ہیں۔
یمن میں امریکی امداد، امریکی ٹرینگ، امریکی سپورٹ اور امریکی ڈرون حملے فقط "سُنی القائدہ" کے خلاف ہوتے ہیں۔
حوثیوں کا ایک بلونگڑا بھی آج تک امریکی شکار نہیں بنا۔
معلوم نہیںکیوں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے اس انتہائی اقدام کے پیچھے بھی امریکا کا دباؤ یا شہہ کار فرما ہے۔
جواب دیںحذف کریں