آج ایک بحث کے دوران بات قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنے کی بات چل نکلی ۔سن سینتالیس سے لے کر آج تک حکمرانوں کو بے نقط سنائی گئی اور مولویوں کا تو مت پوچھیں کیا کیا حال کیاگیا ۔۔۔بہت عرصہ سے میں مذہب پر گفتگو نہیں کرتا شاید اس لئے کہ میرے موقف کو کوئی نہیں مانتا اور منفی بحث کو میں اپنے لئے زہر قاتل جانتا ہوں اس لئے اس سے کوسوں دور بھی ہوں ۔۔ آج چونکہ بحث تازہ تھی سوچا کیوں نہ سب کو ایک بار پھر اپنی سوچ سے آگاہ کیا جائے ۔
میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ کسی مفتی ، کسی عالم ،کسی مولوی ، کسی مسلک یا فرقے کی تحریک کی وجہ سے آئے گا کیونکہ دین اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نافذ کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر بھی بتا دیا۔بس اب اس پر عمل درآمد کرنا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی فرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں ہے یا قرآن کا کوئی ایسا حکم یا قانون نہیں ہے جو کہ نیا آئے گا۔اس لئے جو چیز ( دین اسلام ) جب نافذ ہو چکی اور اس میں ردوبدل بھی ممکن نہیں تو اس کو دوبارہ سے نافذ کرنے کی باتیں میری سمجھ سے بالاتر اور میرے نزدیک فساد کی جڑ کے ساتھ ساتھ روٹی روزی کمانے کا دھندہ بھی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے زمانے ، ملکی حالات اور معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے دین اسلام کے قوانین پر عمل کیا جائے گا ۔۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ دین اسلام اب بھی نافذ ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لئے ہمیں انفرادی سے لے کر اجتماعی طور پر اپنی ذہنی گندگی صاف کرنی پڑے گی ۔ تب تک یہ ممکن نہیں ۔۔۔چونکہ میری نظر میں اسلام اب بھی نافذ ہے ۔۔۔ بس عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ عمل درآمد کیسے ہو گا۔۔۔انفرادی طور پر ۔۔۔۔ یعنی جب ہم میں سے ہر فرد اللہ کے احکامات ماننے اور اس پر عمل کرنے والا بن جائے ۔۔۔۔۔۔ جب یہ احکامات ماننے اور عملی اقدامات کرنے کا عمل انفرادی طور سب میں آگیا تو جان لیجئے گا کہ اجتماعی طور پر اس گھر ، محلے ، گاؤں ، شہر اور ملک میں اسلام نافذ ہوگیا ۔۔
اب دوسری اہم بات کہ کونسا اسلام نافذ ہوگا ۔۔۔ کس فرقے کا ہوگا یا کس مسلک سےگا ۔۔۔۔ یہاں ہمیں یہ بات جاننی چاہئے کہ اسلام ایک ہی ہے جس کا نام ‘‘دین اسلام ‘‘ہے جسے قرآن کے زریعہ سے نافذ کیا گیا اور جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھول کر بتایا اور سمجھایا ۔
اگر ہم فرقے اور مسلک کی بات کریں تو چلیں انفرادی طور پر اسی کو اپنے اندر نافذ کر لیں کیونکہ کوئی بھی مسلک کوئی بھی فرقہ جو کہ ‘‘ دین اسلام کے ساتھ منسلک ہے ‘‘ ۔ جھوٹ ، بے ایمانی ، بے انصافی ، بے راہ روی اور قتل و غارت گری کا درس نہیں دیتا ۔دین اسلام امن اور انصاف کا مذہب ہے اور امن اسی صورت میں ممکن ہے جب انصاف ہوگا اور انصاف صرف دین اسلام کے آنے سے ہی ممکن ہے ۔
یاد رکھئے آگے جاکر حساب کتاب ہم نے اپنا یعنی انفرادی دینا ہے اجتماعی نہیں ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کے ملک میں اسلام نافذ تھا یا کسی مسلک یا فرقے کے چاہنے والوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن کے پیچھے تم تھے انہوں نے اسلام نافذ نہیں کروایا اس لئے تم بخش دئے گئے ہو ۔
اسلام نافذ کر دیا گیا ہے ۔۔۔ ۔ بس عمل کرو ۔۔۔۔ جب عمل کرو گے تو یہی دین اسلام تمہارے اندر نافذ ہوجائے گا پھر تمیں اپنے رب کے علاوہ کسی کی خوشنودی کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی خوف ۔۔۔۔۔
اس موضوع پر مزید تفصیل پڑھنے کے لئے محترم افتخار اجمل بھوپال کی تحریر اسلام اور ہم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
[…] Source of this Post […]
جواب دیںحذف کریںمیں کم عقل ۔ کم عِلم اور ناتجربہ کار لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ تحریر ہے دنیا بھر کے نجیب صاحب کی جو صحافیءِ بر خط ۔ اُردو کے روزنامچہ دار اور سماجی ذرائع ابلاغ کے تجزیہ کار ہیں
جواب دیںحذف کریںآپ نے درست لکھا ہے
اجازت ہو تو میں اپنے بلاگ پر اس کا دوسرا حصہ لکھ دوں کیونکہ میں اس سلسلے میں اپنی تحریر کو مختصر اور موزوں کرنا چاہ رہا تھا تو آپ کی تحریر نظر پڑ گئی ۔اب میں آپ کے لکھے کو چھوڑ کر آگے لکھوں گا
محترم برادر افتخار اجمل بھوپال صاحب
جواب دیںحذف کریںآپ کے تبصرے کا بے حد شکریہ ۔۔۔۔ میں آپ کی تحریر کا شدت سے منتظر ہوں کیونکہ مجھے اس سلسلے میں آپ سے مزید راہنمائی حاصل ہوگی
میں ایک بار آپ کی پھر مشکور و ممنون ہوں اللہ مجھے اور سب کو ہدائت دے آمین
اللہ کا الدین اسلام ، اَس کرہ ارض پر نافذ ہے ۔ بس انسانوں نے اُس کا نفاذ اپنے اوپر کرنا ہے ۔ جو اتنی آسان بات نہیں ۔
جواب دیںحذف کریںکیوں کہ اَس الدین کے راستے میں شیطان آلتی پالتی مارے بیٹھا اور سب کو وہاں سے مذھب اسلام کی راہ دکھا رہا ہے ۔
[…] عالم صاحب نے لکھا ” میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومت…“ […]
جواب دیںحذف کریں[…] عالم صاحب نے لکھا ” میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومت…“ […]
جواب دیںحذف کریںکچھوے اور خرگوش کی کہانی شاید ہی کوئی بچہ ہوگا جس نے 5 جماعتیں پڑھی ہوں اور یہ کہانی نہ جانتا ہو ۔ میرا خیال ہے ہمارے زمانہ میں یہ دوسری یا تیسری جماعت کی کتاب تھی باتصویر
جواب دیںحذف کریںمیں نے آپ کی تحریر کا تتمہ آج شائع کر دیا تھا ۔ شاید آپ دیکھ چکے ہوں
جی محترم برادر پڑھی ہے ۔۔۔سر جی آپ کی جوابی تحریر لکھنے کا بے حد شکریہ آپ کی تحریر سے مجھے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزا دے اور ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔ آمین
جواب دیںحذف کریں[…] تحریر کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا […]
جواب دیںحذف کریں[…] تحریر کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا […]
جواب دیںحذف کریں[…] تحریر ”اسلام اور ہم“ کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا […]
جواب دیںحذف کریں