منگل، 2 جون، 2015

بلاگر بنیں مراثی نہ بنیں

پچھلے چند سالوں سے خبر گرم ہے کہ بلاگروں کی تحریریں فیس بکیے اور میڈیا والے دھڑلے سے چوری کرتے ہیں اور چوری بھی ایسے کرتے ہیں جیسے یہ اُن کی اپنی ذاتی جاگیر ہو۔
بابے عیدو سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے جو جواب دیا وہ میں یہاں حرف بہ حرف نقل کئے دیتا ہوں ۔۔۔۔ بابے عیدو کی تحقیق کے مطابق اصل میں جس بلاگرز کی تحریریں چوری ہوتی وہ بلاگ کی عین روح کے مطابق نہیں ہوتی ۔۔بابے عیدو کا کہنا یہ ہے کہ وہ تحریریں تہذیب کے دامن میں لپٹے ہوئے ایک مضمون یا کالم کی صورت ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی میڈیا والے کے مزاج اور اور ان کے اخبار کی پالیسی کے عین مطابق ہیں ۔اس لئے وہ ظالم لوگ ان تحریروں کو لے اُڑتے ہیں اور کسی بھی نسوانی نام سے ان کو اپنے اخبار کی زینت بنا کر بلاگر کی پیٹھ پر ٹھبہ لگانے میں دیر نہیں لگاتے ۔

اصل میں بلاگنگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچ جب بنا کپڑوں کے الفاظ میں ڈھلتی ہے تو سب کو ننگا کردیتی ہے اب اس ننگے پن کو ایک اچھے بلاگر نے اپنے اپنے انداز سے کپڑے پہنانے ہوتے ہیں ۔کوئی کم کپڑے پہناتا ہے تو کوئی زیادہ ۔اب اس ننگی سوچ کو کبھی بھی کوئی میڈیا والا چرا نہیں سکتا ۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایک بلاگر کی سوچ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے اور اس آواز کو جب وہ تحریر کے زریعہ سے لوگوں تک پہنچاتا ہے تو وہ اثر بھی رکھتی ہے ۔۔۔ میرے خیال میں ایک اچھے بلاگر کا تحریر کے قواعد و ضوابط یا تحریر کی حدود و قیود سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے ۔وہ اسی سوچ کو لکھے جو اس کے ذہن میں ہے اور جس کے متعلق وہ آگاہی دینا چاہتا ہے ۔

یاد رہے کہ بلاگرز پوری دنیا میں اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتے ہیں اور اسی لحاظ سے اردو بلاگرز کا بھی اپنا ایک قبیلہ ہے اور اس کی بھی دنیا میں اپنی ایک پہچان ہے ایک نام ہے ۔۔حال ہی میں دیکھا گیا ہے اردو بلاگرز میں بہت سے نئے لوگوں نے قدم رکھا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ لوگ تحریر تو اچھی خاصی لکھ رہے ہیں مگر اپنی پہچان چھپا رہے ہیں ۔
بلاگر ایک آزاد منش اور ایک آزاد خیال انسان ہوتا ہے جسے اپنی پہچان چھپانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ اگر آپ نے بلاگنگ کرنی ہے تو کھل کر کریں اور پہچان کے ساتھ کریں ۔یاد رکھئے چور بن کے سچی بات کا ڈھنڈورا کبھی نہیں پیٹا جا سکتا ۔

ایک بلاگر کو مراثی کی طرح کبھی بھی شاباشی کی چاہ نہیں ہونی چاہئے ، جو شاباشی کے لئے لکھتے ہیں وہ بلاگر نہیں مراثی ہیں اس لئے اگر آپ بلاگر ہیں تو اپنی سوچ کو تہذیب کی تحریر کے کپڑے ضرور پہنائیے ۔۔۔ اگر آپ اپنی ‘‘ میں ‘‘ کے لئے یا خود کو نمایاں کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو پھر میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ بلاگر نہیں مراثی بنئے کیونکہ مراثیوں کی آجکل میڈیا میں ویسے ہی بڑی مانگ ہے ۔۔۔

4 تبصرے:

  1. نسرین غوری2 جون، 2015 کو 8:56 AM

    ہممم ۔۔۔ آپ نے اپنے خیال کو مناسب کپڑے پہنائے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہترین کاوش۔ جزاکہ اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. گویا بلاگر کو خام مال پہ اکتفا کرنا چاہیئے
    یہ صلاحیت کا بھرپور استعمال نہیں ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ثابت ہوا آپ ننگے نہیں ہیں
    اوہ سوری آپ کے الفاظ ننگے نہیں ہیں

    جواب دیںحذف کریں