اتوار، 22 جولائی، 2018

الیکشن 2018 سوشل میڈیا اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر


آج سے تین دن پیشتر مجھے فرخ منظور نے پاکستان کی ایک معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے آیا ہوا ایک دعوت نامہ پہنچایا کہ اتوار صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے پاکستان الیکشن 2018 کے سلسلہ میں سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام پر ایک مکالمہ ہو رہا ہے جس میں بلاگرز نے بھی شرکت کرنی ہے ۔

موضوع چونکہ دلچسپ تھا اس لئے سوچا شرکت لازمی کرنا چاہئے ۔۔۔ وقت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے صرف لاہور کے مرد و زن اور ایک خواجہ سرا بلاگر کو بھی اپنی طرف سے اس مکالمے میں شرکت کی درخواست کر دی ۔۔۔مگر خواتین اور خواجہ سرا بلاگر نے مصروفیت زیادہ ہونے کی وجہ سے مکالمے میں شرکت پر معذرت کر لی ۔۔۔ جس کا مجھے افسوس ہوا۔

وقت مقررہ پر جب ہم معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کے آفس پہنچے تو انہوں نے بڑی عزت سے ہمیں خوش آمدید کہا ۔۔۔ آپس میں تعارف کروانے کے بعد ہمیں الیکشن 2018 کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں اور تنظیمیوں کی جانب سے جو نفرت انگیز مواد شائع کیا جارہا تھا اس کے سروے سے آگاہ کیا گیا اور اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیس بک کے ماہانہ صارفین کی تعداد ‘‘ تین کروڑ ‘‘ کے لگ بھگ ہے جبکہ دوسری جانب اس کے مقابلے میں ٹیویٹر کے ماہانہ صارفین صرف 35 لاکھ ہیں ۔۔مگر پھر بھی فیس بک کی نسبت ٹویٹر پر نفرت انگیز مواد اور اس پر اظہار رائے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ۔۔الیکشن 2018 اور سوشل میڈیا صارفین کے حوالے سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کے لئے تیس ہزار صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تین ماہ ( اپریل 2018 تا جولائی 2018 تک ڈیٹقا اکھٹا کیا گیا ۔

یہ تحقیقایک پراجیکٹ ‘‘ پر امن الیکشن اور نوجوانوں کا کردار ‘‘ کا حصہ تھی جس میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی کل دس یونیورسٹیز کے 200 طلباء و طالبات نے براہ راست دو دن کے مشاورتی اجلاسوں میں حصہ لیا اور تربیت حاصل کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں پر امن الیکشن اور نوجوانوں کے کردار کے حوالہ سے 100 کے قریب مختلف پراجیکٹس کئے ۔

اس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا نفرت نانگیز مواد کی اشاعت میں کس طرح مددگار ثابت ہو رہا ہے۔اور سیاسی تشہیر میں اس قابل نفرت مواد کو سیاسی رہنما اور اس کے حامی کس طرح استمال کر رہے ہیں ۔


تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی کی تحریری مواد کے ساتھ ساتھ تصاویر ، آڈیو اور ویڈیوز کا استمال نفرت انگیز مواد پھیلانے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔اپریل سے جولائی تک کی سیاسی تشہیر میں سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد کا استمال کیا گیا جس میں نفرت انگیز مواد کی تائید ، تشہیر اور اس پر مباحث شامل تھے ۔اس رپورٹ سے یہ بھی بات سامنے آئی کہ نفرت انگیز مواد میں اعتراضات ،الزامات اور شخصی تشخص کو نشانہ بنانے کا استمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔۔مزید مذہبی عدم برداشت اور صنفی اعتبار سے مخالفین کو تضحیک اور قابل نفرت انداز میں پیش کرنا بھی ایک مقبول طرز عمل ہے ۔۔اس حوالے سے ٹویٹر پر ایسے ہیش ٹیگ کا استمال جا بجا دیکھا گیا جو براہ راست نفرت انگیز بیانئے پر مشتمل تھے ۔سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر براہ راست گالم گلوچ ،عقیدے ، برادری ، پیشہ اور صنفی اعتبار سے نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ زیادہ نمایاں طور پر سامنے آیا ۔۔


اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بات سامنے آئی کہ الیکشن کے دنوں میں انفرادی اور ایک گروہ کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی تخلیق و تشہیر کو باقاعدہ ایک منظم طریقے سے بھی کیا جارہا ہے اور ایسے کئی صارفین اور پیج متحرک ہیں جو نفرت انگیز مواد کی تشہیر باقاعدہ کرتے ہیں ۔۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی اس حالیہ رپورٹ کی رو سے ہمیں ضرورت ہے کہ نفرت انگیز مواد کے حوالے سے قابل عمل قانون سازی کی جائے اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں جانکاری بڑھانے کے لئے نصاب میں ایسے اسباق شامل کئے جائیں جو کہ قابل نفرت رویے اور ان کے اظہار کو روکنے میں مدد دے سکیں ۔

3 تبصرے:

  1. الیکشن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی اشاعت
    کچھ مزید باتیں

    دستیاب ڈیٹا کا ساتھ فیصدی حصہ ناقابل اشاعت تھا۔ کیونکہ اس میں ایسی زبان، اشارے اور الفاظ شامل تھےجو شائع نہیں کیے جا سکتے۔
    سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شائع کرنے والے اور اس کو پھیلانے والے سبھی پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نصاب کی کیا کوالٹی ہے۔ یا اس میں کس طرح کی چیزوں کو مزید شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
    سوشل میڈیا پر نفرت کا کاروبار کرنے والے منظم گروہ ہیں۔ جو پیسوں کے عوض کبھی کسی گروپ کو کبھی کسی گروپ کو ٹارگٹ بناتے ہیں۔ اس دوران ایک دوسرے کی مخالفت میں جو ڈیٹا ان کو دستیاب کیا جاتا ہے۔ وہی ان کی طاقت بنتا ہے۔ اور اگلی دفعہ یہ ڈیٹا انہی کے خلاف استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔
    نفرت کے اس کاروبار کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قابل عمل قوانین نہیں ہیں۔
    زیادہ تر لوگوں کو علم ہی نہی کہ نفرت انگیز مواد ہوتا کیا ہے۔
    سیاسی پارٹیوں کی رہنما میڈیا پر اور اپنے بیانات میں نفرت انگیز الفاظ اور فقرے عموما بول دیتے ہیں۔ جو بعد میں علامتیں بن کر ٹوٹر پر ہیش ٹیگ کی صورت میں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
    جو لوگ سوشل میڈیا پر نفرت پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر دوسرے لوگ ان سے اخلاقی حوالوں سے بحث کرتے ہیں۔ جو زیادہ تر بے سود ثابت ہوتی ہے۔ مگر بہت کم لوگ طے شدہ پروسیجرز کے مطابق ایسے صارفین کے متعلق متعلقہ فورم پر رپورٹ کرتے ہیں۔
    عام طور پر لوگ اخلاقی اعتبار سے رویوں کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ٹوٹر اور فیس بک کو رپورٹ یا وارننگ نہیں بھیجتے۔
    میڈیا، تعلیمی ادارے، سیاسی پارٹیاں اور سول سوسائیٹی کی ذمہ داری ہے کہ نفرت کے اس کاروبار کو سینجیدگی سے دیکھیں اور اس کے متعلق کوئی واضح قابل عمل لائحہ عمل بنائیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. عثمان اختر
    آپ کے تبصرے اور اس میںمزید رہنمائی کا بہت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. // نفرت کے اس کاروبار کی روک تھام کے لیے کوئی موثر قابل عمل قوانین نہیں ہیں۔//

    قوانین تو بن چکے ہیں کوئی شکایت کرے تو کاروائی ہو سکتی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں